Tag Archives: حضرت سید احمد شہید کی تحریک اصلاح وجہاد

تحقیق وحدت الوجود و الشہود (الہامات الموجود الودود فی تحقیق وحدت الوجود و الشہود) – مع حالات مصنف مولانا شیخ محمد تھانوی محدث

tahqeeq-wadatul-wojood

 

تحقیق وحدت الوجود و الشہود – مع حالات مصنف مولانا شیخ محمد تھانوی محدث

اصل عنوان: الہامات الموجود الودود فی تحقیق وحدت الوجود و الشہود

مرتبہ: ثناء الحق ایم۔اے۔ (علیگ)

ناشر: پاک اکیڈیمی، گولیمار، کراچی۔

Tahqeeq Wahdatul Wujood Wash Shuhood By Sheikh Muhammad Muhaddis Thanvi

Edited by Sanaul Haque M.A. Alig.

ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

آج آپ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت کے امین بنائے جارہے ہیں از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

Aaj Aap Sayyid Ahmad Shaheed ki Dawat ke Ameen banae ja rahe hein by Sayyid Abul Hasan Ali Nadwi

[مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی دار العلوم احمدیہ سلفیہ، دربھنگہ کے جلسۂ دستار بندی میں مارچ ۱۹۸۴ء کو کی گئی تقریر۔ ]

أعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم، بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم  ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا، فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ، وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ، وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللّٰہِ، ذَلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ﴾۔[سورۃ فاطر:۳۲]

 

خاندان صادق پور کی خصوصیت:

            حضرات اساتذۂ کرام اور عزیز طلبہ! میں دو باتیں بتانا چاہتا ہوں ، ایک تو یہ کہ بچپن سے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ گھٹی میں جن لوگوں کے نام محبت و عظمت کے ساتھ پڑے ، اور یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ واقعی گھٹی میں پڑے، ان میں حضرت سید احمد شہید (رحمۃ اﷲ علیہ) اور ان کے یارانِ باثقہ ، مجاہدین با صفا کے علاوہ، کہ یہ گھر کی چیز تھی،حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم صاحب کا نام ہے ،اور جب پڑھنے لکھنے لگا تو مولانا عبد العزیز صاحب کا نام اس میں شامل ہوا، حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم صاحب کا ہمارے خاندان سے بڑا قریبی تعلق رہا ہے، ہمارے جدِّمادری سید ضیاء النبی صاحب جو حضرت سید صاحب ؒ کے سلسلہ کے آخری بزرگوں میں سے صاحب نسبت و صاحبِ باطن تھے ، ان کے پاس وہ آیا کرتے تھے، اور خود میرے گھر میں جو انقلاب آیا ، وہ حضرت مولانا ابراہیم صاحب کی تقریر سے آیا۔

            میری والدہ سناتی تھیں کہ ہمارے خاندان میں جدید تعلیم کا رواج تھا، میرا دادیہال -الحمد ﷲ- خالص مولویوں کا خاندان ہے ، اور اس میں جائداد و زمین نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن میرے نانیہا ل کا بڑے زمینداروں میں شمار ہوتا تھا، اوراگرچہ بزرگوں کے اثرات چلے آرہے تھے، لیکن پھربھی ہر چیز اپنا ایک اثر رکھتی ہے، إذا ثبت الشيء ثبت بلو ازمہ، زمینداری آئی اور بڑی زمینداری آئی، اور میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس کا شجرۂ نسب بہار سے جا ملتا ہے، اور آپ ہی کے قریب کے ضلع مظفر پور سے ملتا ہے، میرے جدِمادری، میری والدہ کے حقیقی دادا مولوی سعید الدین صاحب رائے بریلوی جو سید صاحب سے بیعت کا تعلق رکھتے تھے ، وہ یہاں رہے، انھوں نے وکالت کی احتیاط کے ساتھ جو اس زمانے میں ممکن تھی ، اس سے مظفر پور میں جائداد پیدا کی، مجھے بچپن سے یہ بات معلوم تھی ، میں مظفر پور کا نام شروع سے سنتا تھا،تو جب مظفر پور سے میں گزر رہا تھا ، تو وہ یاد تازہ ہو گئی، تو زمینداری کے سواد پڑے، لیکن مولانا ابراہیم کی تقریر سے دنیا بدل گئی۔

            مولانا ابو محمد ابراہیم صاحب ان لوگوں میں تھے جو عمل بالحدیث کے ساتھ تعلق مع اﷲ اور نسبتِ باطن رکھتے تھے، اور یہ خصوصیت خاندانِ صادق پور کی ہے، اور صادق پور کا سلسلہ سید صاحب کی تحریک سے جا ملتا ہے۔

 

سید احمد شہیدؒ کی تحریک کی خصوصیات:

            حضرت سید صاحب کی تحریک چار چیزوں کی جامع تھی:

            ۱:- توحید خالص ﴿أَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ﴾[ سورۃ الزمر:۳]

            ۲:- اتّباع سنت- آپ مولانا ولایت علیؒ کے حالات پڑھیے، مولانا یحییٰ کے حالات پڑھیے، اولیا ئے متقدمین کے حالات آپ کو نظر آئیں گے ، تزکیۂ نفس اور تقویٰ کا تذکرہ جو آپ کتابوں میں پڑھتے ہیں، ان کی زندگی میں آپ کو نظر آئے گا، میں سچ کہتا ہوں، ان کی سیرت پڑھنے سے آپ کی نمازوں کی کیفیت بدل جائے گی، میں نے خود اس کا بارہا تجربہ کیا ہے۔

            ۳:- نسبت مع اﷲ، دوام ذکر اور خدا کے ساتھ ہر وقت تعلق۔

            ۴:- اعلائے کلمۃ اﷲ، جو اگر کبھی جہاد با لسیف کا تقاضا کرے تو جہاد با لسیّف ، جہاد و قتال میں جو نسبت ہے عموم و خصوص کی ، اہلِ علم جانتے ہیں، قتال اخص ہے جہاد سے ، جہاد کبھی کبھی قتال کی نوع میں ظاہر ہوتا ہے، اس وقت وہی افضل جہاد ہوتا ہے ،لیکن جہاد اس سے وسیع ہے، وہ بغیر سیف کے بھی ہوتا ہے، اور مدّتوں ہوتا رہتا ہے، یہ سب جہاد میں شمار ہوتا ہے، غرض سید احمد شہید (رحمۃ اﷲ علیہ) کی جماعت ان چار چیزوں کی مجموعہ تھی۔

 

ہم اپنا احتساب کریں:

            میں نے دیوبند کے جشن صد سالہ میں الفاظ کے تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہ بات کہی کہ ان جماعتوں کو جن کا تعلق حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی ؒ کی جماعت سے ہے، اور حضرت سید صاحب کی جماعت سے، خواہ وہ جماعتیں اہل حدیث حضرات کی ہوں، یا ان میں سے ہوں جو اپنے آپ کو دیوبندی کہلاتے ہیں، ان سب جماعتوں کو ہمیشہ یہ احتساب کرتے رہنا چاہیے کہ ہم اس سے منحرف تو نہیں؟ یا خدا نخواستہ ہم اس سلسلے میں ﴿أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ﴾[سورۃ البقرۃ:۸۵] کے تو مرتکب نہیں ہو رہے ہیں ؟ یا ہم نے ایک جُزوکو پکڑ لیا اور دوسرے جُزو کو چھوڑ تو نہیں دیا ؟ یہ اسلاف کی امانت ہے، اور خدا کا شکر ہے کہ اس وقت کی پیش کی گئی رپورٹ میں اس کی طرف بلیغ انداز میں اشارے بھی کیے گئے۔

            تو میں ایک بات عام جماعتوں سے یہ کہتا ہوں کہ سید صاحب ؒ کی جماعت کی یہ جو چار خصوصیات تھیں، توحید خالص اور اتباع سنّت کا خاص رنگ، یعنی احادیث کا تتبع اور ان پر عمل کرنے کی کوشش، اس میں آپ میں اور متبعین سنت کے دوسرے گروہوں میں لَوْن کا تھوڑا سا فرق تو ہو سکتا ہے، اجتہاد کا فرق تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ سب اتّباع سنت کے قائل ہیں، عامل ہیں، اور اس کے لیے کوشاں ہیں، اور تیسری چیز تعلق مع اﷲ ہے، یعنی عوام کے تعلق سے کچھ زیادہ تعلق، ایک طرح کا تعلق اور عمومی ولایت تو ہر مسلمان کو حاصل ہے ،جیسا کہ محققین اور عارفین کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کوولایت عامہ حاصل ہے، لیکن اﷲ کے ساتھ خصوصی ولایت اور اس کے ساتھ محبت جسے قرآن میں کہا گیا ہے:﴿یُحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہُ﴾، ﴿رَضِيََ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ﴾ا ور کہا گیا: ﴿وَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ﴾، یہی چیز عمر بھر اس جماعت کا شیوہ رہیں۔

دستار بندی کا مطلب:

            سن لیجیے ! میں ایک مؤرّخ اور اس جماعت کے ایک امین کی حیثیت سے آپ کو بتلا رہا ہوں کہ یہ جو آپ کے اوپر دستار باندھی جا رہی ہے ، آپ کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس کے ساتھ کیا کیا چیزیں بندھ گئیں،اور جو خصوصیات ذکر ہوئیں، وہ ساری چیزیں اس دستار کے باندھنے میں آ گئیں ، اگر کوئی آنکھ دیکھنے والی ہوتو وہ دیکھ سکتی ہے ، وہ ساری چیزیں اس دستار کے تار و پود اور تانے بانے میں ہیں، آپ کو اس دستار کے مشتملات اور مضمرات کی حفاظت کرنی ہے، اس دستار کے بندھنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ بالکل فارغ ہو گئے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چاروں چیزوں کے لیے آپ کو پوری زندگی وقف کرنی ہے ، اور انھیں زندہ کرنا ہے، انہیں چاروں چیزوں کے ساتھ اﷲ کا وہ مقبولیت کا معاملہ تھا، انہیں خصوصیات کی بنیاد پر اﷲ تعالیٰ نے اس جماعت کے متبعین میں وہ تاثیر اور کیمیا اثری رکھی تھی کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے۔

مولانا سید محمد علی رامپوری کا واقعہ:

            میں ابھی مدراس گیا ،وہاں "الذکر الجلي في کرامات السید محمّد علي الرامپوري”کا ایک نایاب نسخہ مجھے ملا ، حضرت مولانا سید محمد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سید صاحب کے کبار خلفاء میں سے تھے، میں پڑھ کر حیران تھا کہ یا اﷲ! کیسی تاثیر ملی تھی حضرت سید صاحب ؒ کو اور ان کی جماعت کے متبعین کو، اﷲ اکبر،ایک شخص کا انتقال ہورہا ہے، کلمہ نہیں نکل رہا ہے، سارا گھر پریشان ہے، کوشش کی جا رہی ہے، لیکن زبان سے کلمہ نہیں نکل رہا ہے،حضرت مولانا سے ذکر کیا گیا، انھوں نے کہا کہ گھبرایئے نہیں، میں ابھی چلتا ہوں ، تو ان سے لوگوں نے کہا کہ بدعتیوں کا گھر ہے، آپ کے ساتھ بہت برا معاملہ کیا جائے گا ، آپ نے فرمایا: اچھا کوئی بچہ ہے اس گھر کا، اس کو بلا دیجیے، بچے کو بلایاگیا، اور پھر اس سے کہا کہ دیکھو، سرہانے کھڑے ہوکر یہ تلقین کرو، تلقین کرنا تھا کہ وہ زور زور سے "لاإلٰہَ إلّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ” کہنے لگے، سارا گھر گونج گیا، لوگ حیران تھے کہ کیا وجہ ہے؟ لکھا ہے کہ جو لوگ وہاں تھے ،کہنے لگے کہ دیکھو جو لوگ صحیح سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان کا خاتمہ کس طرح ہوتا ہے، دیکھو ہم اس طرح کلمہ پڑھتے ہیں، ہم اس طرح ایمان کی دعوت دیتے ہیں جیسے ایک ہوا چل گئی ہے، انقلابِ عظیم آگیا، معاصی سے نفرت ، بدعات سے اجتناب ، ابھی شرک سے توبہ کی ہے، ابھی ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے، اور آن کی آن میں شرک سے ایسی گھن آنے لگی کہ جو کسی گندی سے گندی چیز سے آتی ہے،یہ سب ان چار چیزوں کے اجتماع کا اثر تھا، اور اصل بات یہ ہے کہ اﷲ کو ان سے کام لینا تھا۔

            تو عزیزو! ایک بات تو یہ ہے کہ اس دستار کا یہ مطلب نہیں کہ صرف پڑھنے پڑھانے بیٹھ جاؤ، بلکہ ان خصوصیات کو پوری ملت اسلامیہ کی طرف منتقل کر و، میں دینی جماعتوں اور ان کی تاریخ اور ان کی تاثیر سے بیگانہ نہیں ہوں ع

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے

            میں نے بہت سی جماعتیں دیکھی ہیں، لیکن واﷲ اس جماعت جیسی تاثیر میں نے کہیں نہیں دیکھی، یہ تاثیر اور قبولیت توحید خالص، اخلاص اور اتباع سنت کا کرشمہ تھی۔

            عزیزو! تم اس کی کوشش کرو کہ اس کا کوئی حصہ تمہیں بھی ملے کہ اس ’میخانہ کا محروم بھی محروم نہیں ہے‘، ان کی محبت اور ان کے مشن کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ،یہ جتنے مدرسے اور مسلک ہیں، یہ صرف پڑھنے پڑھانے کے کارخانے نہیں ہیں، حضرت سید سلیمان ندوی نے مولانا گیلانی سے کہا تھا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ مولانا نانوتویؒ نے اس مدرسہ کو پڑھنے پڑھانے کے لیے قائم کیا تھا؟یہ چھاؤنی تھی چھاؤنی! جب ۱۸۵۷ء میں ہم نے سیاسی طور پر شکست کھائی، تو ہم نے اس کی تلافی کے لیے قلعے بنائے، یہاں سے تیار ہوکر فوج نکلے گی جو ملت اسلامیہ کو بچائے گی، جو زمین قبضہ سے نکل گئی ہے وہ ز مین واپس لائے گی۔

جاہلیت ہر دور میں اپنا آشیانہ بناتی ہے:

            باتیں تو کہنے کی بہت سی ہیں، لیکن میں آپ سے خاص طورپر ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں ، خدا کرے کہ اپنے اصلی اور صحیح رنگ میں سمجھی جائے، وہ یہ کہ ہر دور میں جاہلیت اپنے آشیانے بناتی ہے، کبھی شرک اپنا آشیانہ بناتا ہے ،لیکن اس زمانے کے اہل نظر پر اﷲ تعالیٰ یہ بات منکشف کرتا ہے کہ جاہلیت کی چڑ یا اس آشیانہ میں چھپی ہوئی ہے، جیسا کہ قصوں میں کہا گیا ہے کہ فلاں جن کی روح اس چڑیا کے اندر چھپی ہے جو سات قلعوں کے اندر ہے، پھر ان قلعوں کے بعد ایک آشیانہ ہے، اور اس آشیانہ میں ایک چڑیا ہے، اس کے اندر جن کی روح چھپی ہوئی ہے، اس طر ح جاہلیت کبھی کبھی کسی چیز کو اپنا ہدف اور نشانہ بنا لیتی ہے اور اس میں چھپ جاتی ہے، اور ابتلائے عام ہوتا ہے کہ لوگ اس کے شکار میں آجاتے ہیں۔

            جیسا کہ حضرت عمر (رضی اﷲ عنہ) کے زمانے میں کوئی ایسا درخت تھا جس سے لوگوں کے عقائد خراب ہو رہے تھے اور وہ شرک کا مظہر بن گیا تھا، حضرت عمر ؓ نے اس کو کٹوا دیا، یہاں تک کہ دل پرپتھر رکھ کر بیعت رضوان کے درخت کو کٹوا دیا اور توحید کایہی تقاضا سمجھا ، اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ طائف کا وہ بت جسے لوگ گرانے سے ڈر رہے تھے اور حضورِ اکرم ﷺنے حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کو گرانے کے لیے بھیجا ، اور کہا کہ مجھے اس کے گرانے کی بشارت دینا، چنانچہ انہوں نے ایسا کیا۔

            اسی طرح ہر زمانے میں کچھ بت ہوا کرتے ہیں،اور اﷲ تعالیٰ جن سے کام لینا چاہتاہے ان کی نگاہیں کھول دیتا ہے، حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے زمانہ میں وحدۃ الوجود کی شکل اختیار کر لی تھی، "ہمہ اوست” کی جو آخری شکل ہو سکتی ہے، حضرت مجدد صاحب ؒنے اس کو ہدف بنایا اور اس کو کمزور کر کے دم لیا، اس وقت سے وہ اپنی طاقت کھو چکا ہے، بدعات حسنہ کا ایک فتنہ تھا، جس چیز کو چاہا کہہ دیاکہ یہ بدعتِ حسنہ ہے، اور یہ کہ صاحب! بدعت کی دو قسمیں ہیں: (۱) بدعتِ سیۂ (۲) بدعتِ حسنہ، حضرت مجدد صاحب ؒنے کہا کہ جب اﷲ کے رسول نے کہہ دیا کہ "کل بدعۃ ضلالۃ” تم کون ہو تے ہو کہ یہ کہو:’بعض البدعۃ حسنۃ، و بعض البدعۃ سیئۃ‘، انہوں نے کہا کہ مجھے صاف نظر آتا ہے کہ بدعت دافع سنت ہے، بدعت آتی ہے تو اپنی جگہ بنا لیتی ہے، اور سنت کی جگہ لے لیتی ہے۔

            اسی طرح سے حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ کا دور آیا تو انہوں نے، اور حضرت سید صاحب کا دور آیا تو انہوں نے بھی دیکھا کہ ان ان بدعتوں میں شرک پناہ لے رہا ہے، اور ان ان جگہوں سے لوگوں کے عقائد خراب ہو رہے ہیں، وہ جاہلیت میں مبتلا ہو رہے ہیں، اور فوراً ان پر پوری ضرب لگائی، ایک عام بات تو یہ دیکھی گئی کہ بہار اور کلکتہ میں جگہ جگہ امام باڑے گرائے جاتے تھے، اور اسی کا پلاؤ کھلایا جا تا تھا، ان حضرات نے تعزیے کی کھپچیوں سے کمربند ڈالنے والی لکڑی کا کام لیا، کوئی پوچھے کہ صاحب !ان باتوں سے کیا فائدہ؟ فائدہ یہ کہ یہ حضرات سمجھتے تھے کہ اس وقت اشارۂ الہی کیا ہے، اور اس وقت کا فتنہ کیا ہے؟

            پھر ایک وقت وہ آیا جب معقولی علماء اور اطرافِ لکھنؤ کے بعض فقہاء نے کہا کہ حج کے بارے میں قرآن میں ہے: ﴿مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً﴾[سورۃ آل عمران:۹۷]، شرط یہ ہے کہ راستہ کا امن ہو، امن نہیں ہے ،کیوں کہ بادبانی جہاز میں سمندر کا سفر ہے، اور ان پر پرتگیزی حملہ کرتے ہیں، اس لیے اب ہندوستانی مسلمانوں کے ذمہ سے حج ساقط ہو گیا، اس فتنہ نے اتنا طول کھینچا کہ شاہ عبد العزیز صاحب ؒ کے پاس لکھنؤ کی سرائے سے مفتی فیض الدین صاحب نے خط بھیجا، اور میں نے اس کا جواب پڑھا ہے، کہ صاحب !یہاں دو آدمی آئے ہوئے ہیں، ایک کا نام مولانا عبد الحی صاحب بڑھانوی ہے اور دوسرے کا نام مولوی اسماعیل دہلوی ہے، یہ لوگ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ حج کی فرضیت اسی طرح قائم ہے ، اور ہم کیا کریں؟یہ لوگ کس پائے کے ہیں؟ حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے بڑے جوش میں آکر تحریر کیا ہے کہ مولوی عبد الحی تو شیخ الا سلام ہیں،اور مولوی اسماعیل صاحب حجۃ الاسلام ہیں،اور ان دونوں کو مجھ سے کسی چیز میں کم نہ سمجھو، اور فقہ و حدیث میں یہ لوگ بالکل میرے مساوی درجہ کے ہیں ،اور ان کے ذریعہ سے اﷲ تعالیٰ کا مجھ پر جو احسان ہے، اس کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا، اور یہ لوگ جو کچھ کہیں تم اس کو اختیار کرواور وہی شریعت کا حکم ہے۔

            پھر سید صاحب ؒ نے اعلان فرمایا کہ ہم حج کو جاتے ہیں،جس کا جی چاہے چلے، خرچ کے ہم ذمہ دار ہیں،لیکن محنت بھی کرنی پڑے گی، پیسہ جب ختم ہو جائے گاتو ہم مزدوری کریں گے، لیکن حج کو ضرور جائیں گے ، چاہے کتنے سال لگ جائیں، تو سات سو کے قریب آدمی جمع ہوئے، حضرت سید صاحب ؒ نے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبد الحی صاحب ؒ کو خط لکھوائے، سہارنپور وغیر ہ سب جگہ خط لکھوائے، اور مولانا عبد الحی صاحبؒ کی اہلیہ آئیں، شاہ اسماعیل شہید کے بھی اعزہ آئے ،ا ور حالت یہ کہ اس وقت صرف چند روپے موجود ہیں، ہمارے گھر کے سامنے جو ندی بہتی ہے، جب اس کو پار کیا تو پوچھا کتنے پیسے ہیں؟ کہا: سات روپیہ، کہا: اچھا یہ بھائی جو پہنچانے آئے ہیں ان کو دے کر رخصت کر دو، پھر اس کے بعد جب اﷲ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی ہے، تو بھائی، اگر معتبر ذرائع نہ ہوں اور تواتر کے ساتھ و ہ بات نہ پائی گئی ہوتی تو آدمی کا یقین کرنا مشکل ، بعض بعض شہر تو ایسے تھے کہ وہاں یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہاں کوئی مسلمان بیعت سے خالی نہیں،یہاں تک کہ اسپتال کے مریضوں تک نے کہلوا یا کہ ہم تو محروم رہے، یہاں تشریف لایئے اور ہمیں بیعت و توبہ کرایئے ، اور کھانے کی حالت یہ تھی کہ الہ آباد میں اتنا کھانا بچتا تھا اور گنگا میں اس قدر کھانا ڈالا جاتا تھا کہ وہاں برہمن جو نہانے جاتے تھے ، ان کے نہانے کا مسئلہ پیش آ گیا کہ نہائیں کیسے؟سارا کنارہ سرخ ہو گیااور تیل اور گھی بہتا ہوا نظر آتا تھا، انہوں نے اس وقت حج کیا، کہیں مزدوری کی ضرورت پیش نہ آئی،انہوں نے اس وقت انتخاب کیا کہ اگر اس میں تساہل برتا گیا، تو حج میں روز بروز سستی نظر آنا شروع ہو جائے گی اور حج کا فریضہ بالکل معطل ہوکے رہ جائے گا، انہوں نے اس کی فرضیت کا فتوی دیا، اعلان کر دیا ، گیارہ جہاز کلکتہ سے کرایہ کیے اوریہ سات سو آدمیوں کا قافلہ وہاں سے گیا اور حج کر کے آیا، ہمارے علم میں اجتماعی طور پر جب سے اسلام آیا اتنا بڑا حج نہ کسی بادشاہ نے کیا تھا اور نہ کسی شیخ طریقت نے اورنہ کسی عالمِ دین نے ، اور کلکتہ میں یہ حال ہوا کہ شراب خانے جو تھے ان کی بکری بند ہو گئی، انہوں نے شکایت کی کہ ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں، ا ن کی وجہ سے مسلمانوں نے شراب پینی چھوڑ دی ہے، ہم رات تک تکتے رہتے ہیں، کوئی بھول کر نہیں آتا۔

 

نکاحِ بیوگان:

            پھر ایک وقت آیا کہ سید صاحب ؒ نے محسوس کیا کہ ایک بڑی کمزوری پیدا ہو گئی ہے کہ ابھی ۲۵ برس کی عمر میں ، ۳۰ برس کی عمر میں عورت بیوہ ہو گئی، اور اب وہ پوری عمر اسی طرح گزار دے گی، سید صاحب ؒ نے بیوہ کی شادی پر ابھارا، مجھے ان کے نام معلوم ہیں جنہوں نے عقدِ ثانی کی ہمت کی ، ہندوستان چھوڑ کر چلا جانا پڑا، حجازہجرت کر گئے ، شریفوں کے خاندان کے، علماء کے خاندان کے ، سید صاحب ؒ نے خود کہا کہ مجھے کوئی ضرورت نہیں، لیکن میں اپنی بیوہ بھاوج سے نکاح کرتا ہوں، مولانا عبد الحی بڑھانوی صاحبؒ نے مسجد میں وعظ کیا اور کہاکہ سید صاحب کے ذریعہ ساری سنتیں زندہ ہو رہی ہیں، صرف ایک سنت رہ گئی ہے، سید صاحب ایسے جھک کر بیٹھ گئے، کہنے لگے کہ آپ فرمایئے، میں ابھی شروع کرتا ہوں، اور باہر نکلے اور گھر میں جاکر اسی وقت کہا، اور نکاح کیا اور اس کے بعد خطوط لکھے، اور اس کے بعد یہ سنت زندہ ہو گئی۔

            یہ سنت اس وقت بھی زندہ نہیں ہے ، لیکن الحمد ﷲ مردہ بھی نہیں ہے،اور اب عار کی بات نہیں سمجھی جاتی، جیسا کہ پہلے سمجھی جاتی تھی، ایسے میں جب ایک بڑے عالم مدراس گئے، تو معلوم ہوا کہ یہاں کے مسلمان (بھائی صاحب یہاں میں کوئی سیاسی بات نہیں کہہ رہا ہوں، محض ایک تاریخی واقعہ سنا رہا ہوں، کوئی صاحب کوئی اور بات ملحوظ نہ رکھیں) گائے کا گوشت کھانے سے بہت بچتے ہیں کہ گوشت کھانے سے فلاں دیوتا (اس کا نام مجھے یاد نہیں)ناراض ہو جائے گا،اور اس کی وجہ سے گھر میں کوئی موت ہو جائے گی ، بے برکتی ہوگی، کوئی مسلمان گائے کے گوشت کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا، جو لوگ آپ کے وعظ سنتے تھے، ان کے مواعظ سے متاثر تھے، اور ان کے ہاتھ پربیعت تھے، سب کو دعوت دی اور گائے کے کباب پکوائے،اور کہا کہ اس کو کھانا ہوگا، کھاکر دیکھو ،کچھ ہوتا ہے کہ نہیں ، اب کوئی عالم کہے کہ صاحب کیا تکلیف مالا یطاق ہے، یہ فلاں گوشت کھایا جائے، فلاں گوشت نہ کھلایا جائے، یہ کہاں ہے، فقہ کی کس کتاب میں ہے؟ لیکن جو صاحب بصیرت ہے ،وہ سمجھتا ہے کہ یہاں اسے تم حرام کرنے والے کون؟اسلام اس وقت تک قائم نہیں ہوتا جب تک پوری شریعت اور مکمل اسلام پر عمل نہ ہو: ﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ادْخُلُوْا في السِّلْمِ کَآفَّۃً﴾[سورۃ البقرۃ:۲۰۸] جس چیز کو اﷲ نے جائز کیا ، اسے تم حرام کرنے والے کون؟ ﴿لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ﴾[سورۃ التحریم:۱]بنی اسرائیل نے اپنے اوپر اونٹ کا گوشت حرام کیا، تو اﷲ تعالیٰ نے سزا کے طور پر حرام ہی کر دیا، میں خود مدراس سے ہوکر آرہا ہوں، کہیں نہیں سنا کہ لوگ گائے کا گوشت کھانے سے ڈرتے ہیں، دل سے وہ خوف نکل گیا، وہ خوف نہیں تھا، شرک جلی تھا، شرک جلی کو ختم کیا ۔

 

وقت کا جہاد:

            میرے عزیزو اور دوستو! حدیث شریف میں آتا ہے کہ”’یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْلُہُ، یَنْفُوْنَ عَنْہُ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ، وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ، وَتَأْوِیْلَ الْجَاہِلِیْنَ․”[ أخرجہ البیھقي في المدخل إلی السنن ، کما ذکرہ صاحب مشکاۃ المصابیح في کتاب العلم، الفصل الثاني، حدیث رقم:۲۴۸]، تجربہ کے طور پر عام سامعین کے لیے بتاتا ہوں کہ اس علم کے حامل ہر زمانہ کے عادل لوگ ہوں گے، مقبول و متوازن لوگ ہوں گے ، عدل کا لفظ قرآن و حدیث کی زبان میں بہت جامع لفظ ہے، صرف انصاف کے معنی میں نہیں، اس کے حامل ہوں گے ہر زمانہ کے عدول جو اس سے دور کریں گے غلو پسند لوگوں کی تحریف کو، اور باطل پرستوں کی غلط نیت کواوردعووں کو، اور جاہلوں کی تاویلات کو، ہر زمانہ کے علماء کا فرض ہے کہ اپنے زمانے کے ان آشیانوں کو تلاش کریں، ان پناہ گاہوں کو تلاش کریں جہاں جاہلیت اور کفر پناہ لے رہے ہیں، اور اس پر خاص طور پر ضرب لگائیں، یہ وقت کا جہاد ہے، وقت کی تبلیغ ہے، اور انبیاء (علیہم السلام) کی نیابت ہے، مثلاً آپ کو معلوم ہو جائے کہ فلاں درخت مقدس مانا جاتا ہے، اور اس میں کوئی چیز باندھ دی جائے، جیسا کہ ہم نے بعض بعض علاقوں میں سنا ہے کہ لوگ عرضیاں لٹکاتے ہیں، جیسا کہ شیعوں کے یہاں دستور ہے کہ عرضیاں لٹکاتے ہیں، کسی درخت پر یا کسی چیز پر، تو اس زمانہ کے حاملین کا یہ فرض ہوتا ہے کہ صاف صاف اس کی نکیر کریں اور صاف صاف عوام کو اس سے آگاہ کریں، جیسے سید سالار مسعود غازی کے جھنڈے، اور کہیں کچھ ہوتا ہے، کہیں کچھ ہوتاہے۔

 

شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب تقویۃ الإیمان:

            ہم جس سے منسوب ہیں، مجدد الف ثانی ؒ سے لے کرحضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ اور پھر شاہ ولی اﷲ صاحب ؒ اور سید احمد شہیدؒ،شاہ اسماعیل صاحبؒ، ان کا دستور یہی تھا کہ انہوں نے جہاں جہاں دیکھا کہ شرک یہاں پر چھپا ہوا ہے ، شرک وہاں سے حملہ کر رہا ہے، یا اس نے منفذ بنا یا ہے، اس نے گور یا زیر زمین ایک سرنگ بنائی ہے، اور ہمیشہ زیر زمین کی ضرورت نہیں ہوتی، بالائے زمین وہ پل بنا دیتا ہے، جس کے ذریعہ سے وہ چل کر گھروں تک پہنچ جاتا ہے اور شرک جلی میں مبتلا کر دیتا ہے، "کفر بواح” میں مبتلا کر دیتا ہے، شرک کی تو تاویل ہی نہیں ہو سکتی، اس وقت شاہ اسماعیل شہید ؒ نے (اﷲ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا کرے) "تقویۃالایمان” لکھی، "تقویۃ الایمان” معمولی حالات میں نہیں لکھی، اور اس نے ہلا کر رکھ دیا۔

            لوگ تو اب ایسے پیدا ہو گئے ہیں، کہتے ہیں کتاب شاہ صاحب ؒ کی ہے ہی نہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں شاہ صاحب کی بھی اور مسلک کی بھی اور اپنی جماعت کی بھی خدمت ہے کہ چلو چھٹی ملی، بالکل غلط، تو اتر سے ثابت ہے کہ وہ کتاب حضرت شاہ صاحب ؒ کی ہے، اور ایک ایک لفظ کے وہ ذمہ دار ہیں، اور وہ تو خیر مصنف ہیں، ہم اس کی ذمہ داری لیتے ہیں، ہمارے یہاں مولانا رشید احمد گنگوہی ؒسے اتباعِ سنت اور علم میں بڑھ کر کون ہوگا، سب نے ان کو مان لیا، انہوں نے کھل کرحمایت کی "تقویۃالایمان” کی، اور ساری ذمہ داری اپنے اوپر لی، اور کہا کہ ہم اسی مسلک پر ہیں، اس میں جو کچھ ہے سب صحیح ہے، اور ایک بار اپنی مجلس میں کہا کہ مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ دو لاکھ (یا کتنے لاکھ بتایا) آدمیوں کے عقائد اس کتاب سے درست ہو گئے اور ان کی اصلاح ہو گئی، اس کے بعد کچھ ہوا ہو کوئی نہیں جانتا، تو حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ نے اسی بصیرت کی بنا پر، اور اس کے لیے بصیرت تو کیا بصار ت بھی کافی ہوتی ہے، کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے، مزارات پر کیا ہو رہا ہے، ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے، درگاہوں پر کیا ہو رہا ہے، لوگ کیسے کیسے عقیدے لیے ہوئے بیٹھے ہیں، جو کھلا ہوا شرک ہے، تو "تقویۃ الایمان ” لکھی، کسی نے کہا کہ بتدریج لکھئے، کہنے لگے کہ میں جہاد میں جا رہا ہوں اور اگر مجھے اطمینان ہوتا کہ میں وہاں سے زندہ بچ کر آؤں گا تو میں اس کو تدریج کے ساتھ بیان کرتا اور اس کو ہلکا کرتا، لیکن مجھ کو اس کا بھروسہ نہیں، اس لیے میں تو سب ایک مرتبہ کہہ دینا چاہتا ہوں، اور لکھ دینا چاہتا ہوں، اﷲ تعالیٰ نے اس کتاب سے جتنا فائدہ پہنچایا ، میرے علم میں بہت کم اس طرح کی کتابیں ہیں جن سے اتنا فائدہ پہنچا ہو، یہ آپ لوگ اچھی طرح سمجھیں۔

 

عزیمت کا کام:

            اب میں آپ سے کہتا ہوں کہ کسی طریقہ سے، جس راہ سے شیطان حملہ کرے، عام آبادی پر اور مسلمانوں پر، اور جس میں وہ کامیاب ہو جائے، اور ایسا کامیاب ہو کہ دیندار لوگ بھی اس کے زخم خوردہ ہوں، تو عزیمت کا کام یہ ہے کہ اس زمانہ میں اس کا انتخاب کر کے اس کے خلاف صف آرا ہو، ہمارے بزرگوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صف آرا ہو جاتے تھے، وہ اعلان کے ساتھ میدان میں آتے تھے، اور کہتے تھے کہ تمہیں جو کرنا ہے کرو،ہمیں تو یہ کرنا ہے، ہمیں تو یہ مہم چلانی ہے، اب میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ ان چیزوں کو تلاش کریں۔

 

غلط رسوم و رواج کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت:

            ان چیزوں میں سے ایک چیز تو اس وقت بہت زیادہ عام اور ایسی ہو گئی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ علماء میں نہیں ،بلکہ اﷲ نے جن کو ذرا بھی توفیق فرمائی، ان کو کم سے کم برأت الذ مہ کے لیے، اﷲ کے یہاں جواب دہ نہ ہوں، ان کے خلاف کچھ نہ کچھ آواز اٹھانی چاہیے، وہ ہندوستان کا فتنہ ہے، بہار میں وہ خاص نام سے جانی جاتی ہے، اور شاید میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ یہاں زیادہ ہے، لیکن یہاں بھی بہت ہے، اور وہ ہے جس کو "تلک” کہا جاتا ہے، اور بہار کے مسلمان اس کو "سلامی” کہتے ہیں۔

            میں آپ سے صاف کہتا ہوں ، یہ وہ چیز ہے جس میں شیطان نے قلعہ بنایا ہے، شیطان نے اس آشیانے کے اندر انڈے اور بچے دیے ہیں،اور یہ غضبِ الٰہی کو بھڑکانے والی چیز ہے، ایک شریف گھرانے سے، ایک معصوم بے گناہ عورت کے دل سے اگر آہ نکل گئی کہ یا اﷲ !جس مسلک میں اتنے علماء ہوں، اتنے مدارس ہوں، اتنے واعظ ہوں، اتنے مصنف ہوں، اتنے باحمیت مسلمان ہوں، وہاں یا تو ہماری جوانی ختم ہو، ہمارے والد، ہمارے ماں باپ منہ دکھانے کے قابل نہ ہوں، یا زہر کھاکر مر جائیں،یا ہم گناہ میں مبتلا ہوں، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں،آج وقت کا جہاد یہ ہے کہ سب سے پہلے تو یہ کہ بے تکلفی معاف ، پہلے تو میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر کی شادیاں شاید نہ ہوئی ہوں، اگربہت چھوٹی عمر میں شادیاں ہو جاتی ہوں ، تو میں معافی چاہتا ہوں، لیکن اگر یہ نہیں ہے تو کم از کم ایک تعداد آپ کے یہاں ایسی نکلے گی جو ابھی اس مرحلہ سے گزری نہ ہوگی، پہلے آپ نمونہ قائم کریں،صاف کہہ دیں کہ ہمیں کچھ لینا دینا نہیں، ہم نمونہ قائم کرنا چاہتے ہیں، ہم بالکل سنتِ نبوی ؐ کے مطابق نکاح کرنا چاہتے ہیں۔

            ہمارے خاندان میں(اﷲ کے فضل سے ہمارے خاندان کو بہت کچھ ملا تھا) متعدد ایسے واقعات ہیں، حضر ت سید احمد شہید ؒ کے نواسے سید محمد عمران ٹونک کی مسجد میں کھڑے ہوئے کہ صاحبو!ذرا ٹھہر جاؤ، محمد یوسف کا، کسی بیٹے یا بھتیجے کا نام لیا، اس کا نکاح ہونے والا ہے،کسی کو خبر نہیں ہے، عزیزوں کو، خود گھر والوں کو خبر نہیں ہے، کوئی جوڑا بھی پہن کر نہیں آیا ، خود نکاح پڑھایا، اس کے بعد رخصتی ہوئی، اور دو چار دس بیس آدمیوں کو ولیمہ کے لیے بلا لیا، بار بار ایسا ہوا ہے، حضرت سید صاحب کی جماعت میں تو ایسے بہت سے واقعات ہیں، حافظ محمد ولی صاحب سے جناب وجیہ الدین صاحب نے کہا کہ آپ کا بھتیجہ اتنا بڑا ہو گیا ہے ، آپ کی لڑکی کی بھی کافی عمر ہو گئی ہے، تو شادی ہو جائے، انہوں نے کہا کہ بہت ٹھیک ہے، کہا :کب؟ کہا: اس جمعہ کو ہو جائے، کہا:اعلان ہو جائے؟کہا: کچھ نہیں، سب کام چپ چاپ ہو گیا۔

            دہلی میں سیرت کا جلسہ تھا، کافی مجمع تھا،میں نے تقریر میں مسلمانوں سے کہا: آپ اس امت میں ہیں جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَأَنْتَ فِیْھِمْ، وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّ بَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾[سورۃ الأنفال:۳۳] ہم اس قابل نہیں، ہم خاکِ پا کی طرح بھی نہیں، لیکن یقیناً ہم اس نبی ؐ کی امت ہیں جن کے وجود گرامی کے ساتھ عذاب نہیں آ سکتاتھا، اﷲ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا کہ اﷲ تعالیٰ کا عذاب نہیں آ سکتا جب تک آپؐ اس دنیا میں ہیں، آج آپ ؐ اس ناسوتی دنیا میں نہیں ہیں، لیکن انؐ کی امت تو ہے، اتنی بڑی تعداد میں جس ملک میں امت موجود ہو، تو اس میں ایسا اندھیر ہو رہا ہے، اس میں ایک ماہ میں ایک سو اسّی لڑکیاں دلی میں جلا دی جاتی ہوں، یہ میں نے "قومی آواز” میں پڑھا، جو کانگریس کا اخبار ہے، اور یہ سارے ہندستان میں ہو رہا ہے، ابھی کل ہی میں نے انگریزی اخبار میں جہاز پر آتے ہوئے پڑھا کہ مہاراشٹر میں کسی کی ماں کو پھانسی دے دی گئی، کسی نوجوان نے اپنے ماں باپ کی مدد سے بیوی کو جلا دیا، کیوں؟ اس لیے کہ اس کو اسکوٹر نہیں ملا، موٹر نہیں آئی، تم جینے کے قابل نہیں ہو، تم کو مار ڈالیں گے، تم نکل جاؤ، گلا گھونٹ دیں گے ، اﷲ تعالیٰ کیسے اس کو پسند فرما سکتا ہے؟ اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

            اور اگر آپ فارغین یہ طے کر لیں کہ ہم اپنے علاقوں میں یہ مہم چلائیں گے، عہد لو، قسمیں لو، حلف لو، قرآن مجید ہاتھ میں دو، جو بھی ذریعہ ہو سکتا ہے مسلمانوں کو متاثر کرنے کا، کہ ہم نہ مانگیں گے، نہ ہم دیں گے،اور کم سے کم نوجوان یہ طے کر لیں کہ ہم اپنے والدین سے کہہ دیں گے کہ اگر آپ کرتے ہیں تو ہمیں قبول نہیں، اور جب تک محفلِ نکاح میں ہم "قَبِلْتُ” (قبول کیا) نہ کہیں، نکاح ہی نہیں ہو سکتا، ہمیں قبول نہیں، آپ چاہیں کریں ،ہم ایسے نکاح کو قبول نہیں کرتے۔

 

آپ کے کام کرنے کا میدان:

            یہ وقت کا فتنہ ہے، ہمارے مدارس اصل میں اسی کو روکنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں، جو ایسی عزیمت والے لوگ پیدا کریں،اور باقی کام چلانے والے، کام چلاؤ آدمی تو سب درسگاہوں میں پیدا ہوں گے ، یہ کام ہے کرنے کا ،وہ کام نہیں کہ چلے جا رہے ہیں باہر جامعات میں، اور وہاں سے پڑھ کر جاتے ہیں افریقہ ،یورپ، امریکہ، یہ آپ کا معاشی مسئلہ ہے، یہ معاشی مسئلہ کا حل ہے، آپ جانتے ہیں کہ میں وہاں کی محترم ترین جامعہ کا رُکن ہوں، میں نے وہاں بھی کہا، یہاں بھی کہاکہ میں کسی بات پر فخر نہیں کرتاکہ میں علی گڑھ یونیورسٹی کا رُکن ہوں،یا کشمیر یونیورسٹی سے مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی، لیکن اگر مجھے فخر کرنے کا حق ہے تو الحمد ﷲ یہ کہ میں شروع سے اس وقت بیس برس ہو گئے، تسلسل کے ساتھ-الحمد ﷲ- اس جامعہ کا رکن ہوں، سوائے شیخ عبد اﷲ بن باز کے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس تسلسل کے ساتھ جامعہ کا رکن ہو،تو میں اس کا رکن ہوں۔

            میں اپنے طلبہ سے صاف کہتا ہوں اور آج آپ سے اسی طرح خطاب کر رہا ہوں جیسے ندوہ کے طلبہ سے خطاب کرتا ہوں، دیوبند کے طلبہ سے خطاب کرتا ہوں، جامعہ رحمانی کے طلبہ سے خطاب کرتا ہوں،صاف سن لیجیے: آپ کے کام کرنے کا میدان (میں حالات کی رعایت رکھتا ہوں،اگر کوئی اچھا کرتا ہے اور وہ اس پر مطمئن ہے تو میں اس پر تنقید نہیں کرتا)نہ تو نائجیریا میں ہے اور نہ اریٹیریا میں ہے، نہ کہیں فلاں جگہ ہے، وہ معاشی مسئلہ ہے، اور پھر ایسا بھی دیکھا ہے کہ وہاں جانے کے بعد آدمی یہاں کے کام کانہیں رہتا، وہ اونچے معیار زندگی کا ایسا عادی ہو جاتا ہے ، دماغ اتنا اونچا ہو جاتا ہے، اور حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ کہاں یہاں دیہاتوں میں پھرے گا، اور کہاں یہاں کا دال چاول کھائے گا؟تو آپ سے خیر خواہی کے لیے یہ کہتا ہوں،کہ جہاد کا میدان ہندوستان ہے، مسلمانوں ہی سے نہیں، اپنے غیر مسلم بھائیوں سے بھی اس ملعون رسم کو چھڑائیے، تلک کی جو رسم ہے ، اس کو ہندوستان میں رہنے نہ دیجیے ، اور اﷲ تبارک وتعالیٰ کی برکتیں کیسے کسی ایسی جگہ پر نازل ہو سکتی ہیں جہاں اتنا بڑا ظلم ہوتا ہو؟

٭٭٭٭٭٭٭

یہ تقریر کتاب "طالبان علوم نبوت کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں” حصہ اول سے ماخوذ ہے۔

حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی نمایاں دعوتی خدمات اور امتیازی خصوصیات

 بقلم محمد حماد الکریمی، دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ (یوپی)

Sayyid Ahmad Shaheed ki numayan Dawati Khidmat aur Imtiyazi Khusoosiyat

           اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے، اسی کاملیت وجامعیت کی بنا پر اس کو ابدیت حاصل ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے اس بات کا اعلان کردیا کہ اسلام ہی کامل ومکمل اور انسانیت کی ہدایت کا دین ہے۔(مائدہ:۳) اسی کی اتباع وپیروی میں ہر انسان کی نجات ہے، لہٰذا جب اسلام باقی رہنے والا دین ہے تو لامحالہ اس کا قانون اس کی تعلیمات اور اس کے احکام بھی باقی رہیں گے۔ جس کا بنیادی مأخذ قرآن مجید ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا  {إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْآنَہ} (قیامہ:۱۷) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اسلام کو دوام ہے، اسی طرح اس کے قوانین واحکام اور اس کے بنیادی مآخذ کو بھی بقاء إلی یوم القیامۃ حاصل ہے۔

          لیکن اگر صرف اسلام اوراس کے احکام ہدایت انسانی کے لیے کافی ہوتے تو اللہ اپنے انبیاء کو نہ بھیجتا؛ چونکہ آسمانی دنیا اور زمینی دنیا کے درمیان رابطہ کے لیے ایک ایسی ذات پاک صفات کی ضرورت ہے، جو جسمانی اعتبار سے زمینی دنیا سے متعلق ہو، لیکن اس کی فکریں روحانی اور اس کے تعلقات آسمانی ہوں جو آسمانی پیغام کو حاصل کرکے صحیح طور سے لوگوں تک پہنچائے، اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ نے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کیا۔

          اب چونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا تو اس کی نیابت کا اشارہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاک ارشاد میں اس طرح کردیا:  {العلماءُ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَاءِ وَ إنَّ الأنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنارًا وَلاَ دِرْھَمًا وَلٰکِنْ وَرَّثُوا العِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہٗ أَخَذَ بِحَظٍّ  وافر} (مشکوٰۃ المصابیح) اسی ارشاد پاک کی حقانیت ہے کہ اُس وقت سے اِس وقت تک ہر زمانے میں علماء ربانیین اور مصلحین و مجددین کا وجود رہا اور ان شاء اللہ تا یوم قیامت رہے گا،  وما ذلك علی اللہ بعزیز۔

          اگر کوئی چاہے تو وہ ان کی سیرت وسوانح اور اصلاحی وتجدیدی کارناموں پر تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کے ذریعے مطلع ہوسکتا ہے، لیکن کسی بھی شخصیت کے مطالعہ اس کے بارے میں پڑھنے اور اس کو جاننے سے پہلے چند بنیادی واہم باتوں کی طرف توجہ دینے کی نہایت ہی ضرورت ہے، جس سے عموماً بے اعتنائی برتی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔  (اللّٰهُمَّ احْفَظْنَا مِنْ ذٰلِك)  انہی باتوں کی طرف مولاناابوالحسن علی ندویؒ نے اپنی کتاب "دعوت وعزیمت” کے پیش لفظ میں نہایت ہی تفصیل سے اشارہ کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:

          ۱- کسی شخصیت کے حالات معلوم کرنے کے لیے خود اس کی تصنیفات واقوال یا اس کے رفقاء وتلامذہ ومعاصرین کی تصنیفات کو ترجیح دی جائے، آخری صورت میں بعد کے مستند مآخذ پر اعتماد کیا جائے۔

          ۲- ہرشخصیت کو اس کے زمانہ کی ضرورتوں اور تقاضوں نیز اس عہد کے میدان عمل کے لحاظ سے پرکھا جائے، ورنہ عظیم سے عظیم شخصیت بھی دوسرے زمانہ اور ماحول کے لحاظ سے ناکام ثابت کی جاسکتی ہے۔

          ۳- صرف علمی کمالات پر اکتفا نہ کیا جائے؛ بلکہ باطنی پہلو پر بھی گہری نظر ہو۔(۱)

تیرہویں صدی ہجری اور منصب امامت

           تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو تیرہویں صدی ہجری میں دنیائے اسلام میں جو عالمگیر دینی اخلاقی اور سیاسی انحطاط نظر آتا ہے، وہ دفعتاً پیدا نہیں ہوا تھا؛ بلکہ تدریجاً پیدا ہوا تھا، اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

          خلاصہ یہ کہ عالم اسلام اس وقت ہر طرح سے زوال وانحطاط کا شکار تھا، اگرچہ اوّل وقت سے عالم اسلام کے مختلف گوشے میں وقتاً فوقتاً مصلح اور مجدد پیدا ہوتے رہے، جن سے مسلمانوں میں زندگی اور بیداری پیدا ہوئی، عقائد واعمال کی اصلاح ہوئی، کہیں کہیں میدان جہاد بھی آراستہ ہوا، اور کارگزار صحیح الخیال جماعتیں بھی پیدا ہوئیں، لیکن مسلمانوں میں عالمگیر بیداری پیدا نہیں ہوئی۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت

           ۱- مذہبی حالت: چونکہ ہندوستان کے اکثر علاقے میں اسلام ایک لمباچکر کاٹ کے ایران وافغانستان کے راستے سے آیا تھا، اس لیے اپنی بہت سی تازگی کھوچکا تھا، جس کی بناء پر ایک زمانہ کے بعد تدریجی طور پر مسلمان شرک جلی کے شکار ہوگئے، سنت وشریعت بے معنی الفاظ بن گئے، قرآن مجید کو ایک معمہ سمجھ لیاگیا اور فرائض وعبادات سے غفلت عام ہوگئی۔

          ۲- اخلاقی حالت: بعینہٖ وہی تھی جو ایک زوال پذیرقوم کی ہوتی ہے، فسق وفجور مسلمانوں کے آداب میں داخل ہوکر معاشرت کا جز بن گئی تھی، شراب نوشی اور نشہ آور چیزوں کا استعمال عام تھا حد یہ کہ بعض شرفاء اپنے لڑکوں کو بازاری عورتوں کے پاس زبان وعلم اور مجلس کی تعلیم کے لیے بھیجتے تھے، نکاح کی تعداد متعین نہ رہی؛ بلکہ بعض نکاح کے بھی پابند نہ رہے، عیش پرستی کا یہ عالم تھا کہ ہر روز روزِ عید اور ہر شب شبِ برات تھی، امراء و فقراء سب کا ایک ہی حال تھا۔

          ۳- سیاسی حالت: اس صدی میں سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرچکا تھا، دکن سے لے کر دہلی تک کا ملک کا حصہ مرہٹوں کے رحم وکرم پر تھا، پنجاب سے افغانستان تک سکھوں کا راج تھا، اور ان سب پر انگریزوں کا تسلط تھا، اور جو مسلمان حکمراں تھے وہ انگریزوں کے کٹھ پتلی تھے۔

          یہ تھا تیرہویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی ہندوستان میں حالت کا ایک طائرانہ جائزہ، لیکن اس جائزہ سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہوگا کہ علمی، دینی اورروحانی حیثیت سے تیرہویں صدی کا زمانہ بالکل تاریک اور ویران تھا، دل ودماغ کے سوتے بالکل خشک ہوچکے تھے؛ بلکہ یہ زمانہ ایک لحاظ سے ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا قابل ذکر عہد بھی ہے، اس میں بعض ایسی باکمال وممتاز ہستیاں موجود تھیں جن کی نظیر ملنی مشکل ہے۔

          دینی وعلمی کمالات کی جامعیت کے لحاظ سے دیکھيے تو سراج الہند شاہ عبدالعزیز دہلوی اور بیہقی وقت حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی جیسے اکابر اسی عہد کی زینت ورونق ہیں۔

          علوم ریاضیہ میں دیکھیے تو قاضی القضاۃ نجم الدین کاکوری اور نواب تفضل حسین خاں وغیرہ جیسے مجتہدینِ فن وموجد اسی دور کی یادگار ہیں۔

          تصوف وطریقت کو دیکھیے تو ہرسلسلے کے ایسے اکابر شیوخ موجود تھے، جنھوں نے اپنے طریق کو تازگی بخشی اور لاکھوں بندگانِ خدا ان کے انفاس قدسیہ سے فیضیاب تھے۔

          خلاصۂ کلام یہ کہ تمام خامیوں اور خرابیوں کے باوجود زندگی کے آثار باقی تھے، صلاحیتیں موجود تھیں، قوتیں وافر تھیں، لیکن اس وقت ایک ایسے شخص کی اور ایسی جماعت کی ضرورت تھی جو دین وعلم اور صلاحیتوں کے اس بچے کچھےسرمائے سے وقت پر کام لے، جو دلوں کی بجھتی ہوئی انگیٹھیاں دوبارہ دہکادے، افسردہ دلوں کو ایک بار پھر گرمادے، اور ملک میں اس سرے سے اُس سرے تک طلب اور دین کی تڑپ کی آگ لگادے، جو شخص ان اوصاف مذکورہ اور دیگر اوصاف حسنہ سے متصف قائدانہ صلاحیتوں سے آراستہ ہو، اسلام کی بلیغ ومعجز اصطلاح میں اس کو ’’امام‘‘ کہتے ہیں او ریہ جگہ بارہویں صدی ہجری کے اواخر اور تیرہویں صدی ہجری کے اوائل تک تمام اہل کمال اور مشاہیر رجال کی موجودگی میں خالی تھی۔

سیّد صاحب کی سیرت پر اجمالی نظر

           یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنے ایسے مخلص بندوں کووجودبخشا ہے جنھوں نے لوگوں کو اس کی طرف بلایا، اور دین کی تجدید کی، اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عین تیرہویں صدی کے آغاز میں اس شخصیت کو وجود بخشا جن کو دنیا  سیّداحمد شہیدؒ کے نام سے جانتی ہے۔

زندگی کا اجمالی خاکہ

           نام       :         احمد بن عرفان

          ولادت:  ۶/صفر ۱۲۰۱ھ مطابق ۲۹/نومبر۱۷۸۶ء

          جائے ولادت:  سید شاہ علم اللہ صاحب کے اس دائرے میں جو اب تکیے کے نام سے مشہور ہے۔

          والد کا نام اور سلسلہ نسب: سیدمحمدعرفان بن سید محمدنوربن سید محمد ہدیٰ بن سید علم اللہ۔ نسب بواسطۂ حضرت حسنؓ حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے۔

          والد کی وفات: ۱۲۱۴ھ

          ۱۲۲۲ھ میں: کسب معاش کے لیے لکھنؤ کا سفر کیا،اور وہاں سے دہلی جاکر شاہ عبدالعزیز دہلوی سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔

          ۱۲۲۴ھ میں: وطن واپسی ہوئی اور سید محمد روشن کی صاحبزادی بی بی زہرہ سے نکاح ہوا۔

          ۱۲۲۶ھ میں: دہلی کا دوسرا سفر کیا۔

          ۱۲۲۷ھ میں: نواب امیر خان کے لشکر میں ملازمت اختیار کی۔

          ۱۲۳۶ھ میں: حج بیت اللہ کا سفر کیا۔

          ۱۲۳۷ھ کو: ایک لمبے دورے کے بعد جدہ پہنچے۔

          ۱۲۳۹ھ کو: سفر حج سے وطن واپسی ہوئی۔

          ۱۲۴۱ھ کو: شمالی مغربی ہندوستان کی طرف ہجرت کی۔

          اسی سال اکوڑہ کی پہلی جنگ ہوئی جس میں فتح حاصل ہوئی۔

          اس کے بعد مسلسل جنگ ہوتی رہی، یہاں تک کہ سید صاحب نے بعض اسباب کی بناء پر وہاں سے کشمیر کا رخ کیا۔

          ۵/ذیقعدہ ۱۲۴۶ھ کوبالاکوٹ پہنچے، ۱۷/ذیقعدہ ۱۲۴۶ھ مطابق ۶/مئی ۱۸۳۰ءکو بالاکوٹ میں آخری جنگ ہوئی جس میں سید صاحب مرتبۂ شہادت سے سرفراز ہوئے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے! (آمین)

          سید صاحب نے دعا کی تھی کہ اے اللہ میری قبر کو صیغۂ راز میں رکھ تاکہ لوگ اس کو بدعات کا گڑھ نہ بنالیں، جیساکہ اس زمانہ کا رواج تھا، اور آج بھی ہے، سید صاحب کی یہ دعا قبول ہوئی، اور ان کی قبر اب بھی نامعلوم ہے، جس کی بناء پر ایک زمانہ تک بہت سے لوگوں کو یہی خیال رہا کہ سید صاحب کی موت واقع نہیں ہوئی؛ بلکہ وہ غائب ہوئے ہیں۔(۲)

سید صاحب کی نمایاں دعوتی خدمات

           اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق تیرہویں صدی کے منصب امامت اور تجدید دین کے لیے سیدصاحب کا انتخاب کیا، جو امامت کے لیے مطلوبہ صفات سے متصف اور کمالات ظاہری وباطنی کے جامع تھے۔

          درج ذیل سطور میں سیدصاحب کی دعوتی خدمات کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں ۔

          ۱- سلام مسنون کا رواج: جب سید صاحب پہلی مرتبہ شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نہایت سادگی سے ’’السلام علیکم‘‘ کہا، یہ وہ زمانہ تھا کہ سلام مسنون کا رواج تھا، حتی کہ حضرت شاہ صاحب کے خاندان میں بھی اس کی رسم نہ تھی، شاہ صاحب نے جب سید صاحب کا سلام سنا تو بہت خوش ہوئے، اور حکم دیا کہ سلام بطریق مسنون کیا جائے۔

          ۲- اصلاح رسوم: سید صاحب جب بھی کسی سے بیعت لیتے تو ان کو تعلیم دیتے کہ بیاہ برات شادی غمی میں خدا ورسول کے خلاف شرک وبدعات کی رسومات کوئی نہ کرے، ہر امر میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نگاہ رہے، چاہے اس میں خوشی ہو یا غمی۔ اسی بنا پر جب آپ سفر حج پر تھے اور مدینہ میں قیام تھا تو بعض لوگوں نے محفل میلاد کا انعقاد کیا اور سید صاحب کو بھی دعوت دی تو آپ نے فرمایا، اگر اس مجلس کا انعقاد محض لہوولعب کے لیے ہے تو ہم کو شرکت سے معذور رکھیں اور اگر عبادت کی نیت سے ہے تو اس کو کتاب وسنت سے ثابت کردیں، تو میںحاضر ہوجاؤںگا ورنہ ہم کو اس سے کچھ تعلق نہیں۔

          ۳- نشاناتِ شرک کا ابطال: سید صاحب نے ایک آدمی کے یہاں طاق میں مٹی کے کھلونے رکھے دیکھے، تو فرمایا: یہ بت ہیں، ان کو مشرک رکھتے ہیں، ان کو توڑ ڈالو، گھر سے دور کرو، پھر دیرتک شرک کی برائیاں اور توحید کی خوبیاں بیان فرماتے رہے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ صاحب خانہ نے اسی وقت وہ کھلونے توڑ کر باہر پھینک دیے۔

          ۴- بیوہ کا نکاح: اس زمانے میں بیوہ کے نکاح کو بڑے ننگ وعار کی بات اور خلافِ ادب سمجھا جاتا تھا،یہاں تک کہ بعض علماء بھی اس رواج کی حمایت کرتے تھے۔ علماء مصلحین نے اس دہنیت اور جاہلی حمیت کے خلاف زبان وقلم سے تبلیغ کی، لیکن مدتوں کی اس متروک سنت کے احیاء وترویج کے اس جاہلی خیال کے استیصال کے ليے تحریرو تقریر کافی نہ تھی؛ بلکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی عظیم شخصیت اپنے عمل سے اس سنت کا احیاء کرے، اور اس کی ایسی پرزور دعوت دے کہ اس کی قباحت دلوں سے بالکل نکل جائے، اللہ نے دوسرے عظیم الشان اصلاحی وتجدیدی کاموں کے ساتھ یہ عظیم الشان اصلاحی خدمت بھی جس کا اثر سیکڑوں خاندانوں، ہزاروں زندہ درگور عورتوں پر پڑا، سید صاحب سے لی، اور غیب سے اس کا سامان پیدا ہوا اور ایک مدت دراز کے بعدہندوستاني شرفاء كے خاندان میں یہ مبارک تقریب منعقد ہوئی، سید صاحب نے اس پر اکتفاء نہیں کیا؛ بلکہ شاہ عبدالعزیزؒ اور اپنے خلفاء کے نام خط لکھوائے جس میں واقعہ کی اطلاع اوراحیاء سنت کی ترغیب دی جس کی وجہ سے یہ سنت دوبارہ زندہ ہوئی۔

          ۵- حج کی عدم فرضیت کا فتنہ: حج علماء کی تاویلوں اوراس فقہی عذر کی وجہ سے کہ راستہ پرامن نہیں ہے اور سمندر بھی مانع شرعی اور  ’’مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً‘‘ کے منافی ہے،اور اس حالت میں حج کرنا فرمان خداوندی  ’’وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیْکُمْ إلَی التَّھْلُکَۃِ‘‘ کی مخالفت ہے، کچھ مدت سے بالکل متروک یا بہت ہی کم ہوگیا تھا، بعض علماء نے جن کو علومِ عقلیہ میں غلو اور انہماک تھا، حج کی عدمِ فرضیت اور ہندوستانی مسلمانوں کے ذمے سے اس کے ساقط ہوجانے کا باضابطہ فتویٰ دے دیا تھا، ان حالات میں سید صاحب نے حج کا ارادہ فرمایا، جو ادائے فرض کے علاوہ حج کی فرضیت کا بہت بڑا اعلان اور اس کی زبردست اشاعت وتبلیغ تھی، جن کی ان حالات میں سخت ضرورت تھی، گویا کہ سید صاحب کے ذریعہ فریضئہحج کی ہندوستان میں تجدید ہوئی۔

          ۶- ہندوانہ وضع ومعاشرت کی اصلاح: سید صاحب کے زمانے میں مسلمان بہت سے علاقوں میں صرف نام کے رہ گئے تھے، سب کام ہندوؤں کے کرتے، بت بھی پوجنے لگے تھے، ہولی، دیوالی بھی مناتے اور طریقۂ اسلام سے بالکل بے خبر ہوگئے تھے، سید صاحب جس علاقہ میں بھی تشریف لے جاتے تو بیعت لیتے وقت یہ بھی عہد لیتے کہ وہ تمام ہندوانہ وضع ومعاشرت کو چھوڑدیں گے۔

          ۷- دینی تعلیم و تربیت: نیز ان سے یہ بھی فرماتے کہ میں تو ایک جگہ رہ کر تمہاری مکمل دینی تربیت نہیں کرسکتا، پھر کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کرلیتے جو ان کے جانے کے بعد وہاں کے لوگوں کی اصلاح کرتا، اور ان کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ وپیراستہ کرتا۔

          ۸- غیرمسلموں کا قبول اسلام: جس طرح سید صاحب مسلمانوں کی اصلاح کی فکر کرتے اور ان کی ہدایت کی کوشش کرتے اسی طرح غیرمسلموں کو بھی اسلام کی دعوت دیتے، بہت سے غیرمسلم آپ اور آپ کی جماعت کے طریقہ اور اخلاق کو دیکھ کر متاثر ہوتے اور اسلام قبول کرلیتے،اور بعض آپ کی باتیں سن کر اسلام کو تھام لیتے۔

          ۹- نکاح کی ترویج: اس زمانہ میں خاص کر بنگال میں کثرت سے رواج تھا کہ پہلا نکاح تو ماں باپ کرادیتے تھے، اس کے بعد جس کا جی چاہتا کسی عورت کو اپنے گھر ڈال لیتا، اور اس سے بغیرعقد ونکاح کے ازدواجی تعلقات قائم کرلیتا، چند متدین علماء اس خدمت کے ليے متعین كيے کہ بیعت کے بعد سوسوپچاس پچاس آدمیوں کو الگ بٹھاکر ان کے حالات دریافت کرتے جس عورت یا مرد کے تعلقات بغیر نکاح کے ہوتے اور وہ دونوں وہاں موجود ہوتے تو ان کا نکاح پڑھادیا جاتا،اگر دونوں میں سے کوئی ایک غیرحاضر ہوتا تو اس کو طلب کیا جاتا، اور نکاح پڑھا دیا جاتا، اگر اس کی حاضری ممکن نہ ہوتی تو سخت تاکید کی جاتی کہ جلد اس فرض کو ادا کیا جائے۔

          ۱۰- شراب کی کسادبازاری اور برہنہ غسل کی روک تھام: جب سید صاحب سفر حج کے دوران کلکتہ پہنچے تو شراب کی دوکانوں کا یہ حال تھا کہ یکلخت شراب بکنی موقوف ہوگئی، دوکانداروں نے جاکر سرکار انگریزی میں اس کا شکوہ کیا کہ ہم لوگ سرکاری محصول بلا عذر ادا کرتے ہیں، اور دوکانیں ہماری بند ہیں، جب سے ایک بزرگ اپنے قافلے کے ساتھ اس شہر میں آئے ہیں، شہر اور دیہات کے تمام مسلمان ان کے مرید ہوئے اور ہرروز ہوتے جاتے ہیں، انھوں نے تمام نشہ آور چیزوں سے توبہ کی ہے، اب کوئی ہماری دوکانوں کو ہوکر بھی نہیں نکلتا۔ جب سید صاحب نے حج کے سفر کے دوران ايك مقام پر ایک مہینہ قیام فرمایا، تو ديكھا كه وهاں لوگ بے تکلف حوض، تالاب وغیرہ میں برہنہ غسل کرتے تھے، آپ کو یہ بات بہت ناپسند گذری، اور وہاں کے قاضی سے اس سلسلہ میں بات کی گئی، قاضی صاحب نے حاکمِ وقت سے درخواست کی تو حاکم نے چند سپاہی مقرر کردیے کہ جب تک سید صاحب کے قافلے کا قیام رہے، کوئی برہنہ غسل نہ کرنے پائے۔

          ۱۱- سید صاحب کی زندگی کا سب سے روشن باب ہجرت وجہاد اور اسلامی نظام کے قیام سے متعلق ہے، اس زمانے میں جب کہ مسلمانوں میں جذبۂ جہاد سرد پڑچکا تھا، سید صاحب نے اپنی تحریک کے ذریعے اس جہاد کا احیاء کیا، جن مقاصد کے تحت سید صاحب نے صدائے جہاد بلند کی، ان کا اظہار آپ کے خطوط ومکاتیب سے ہوتا ہے، جو آپ نے اس سلسلہ میں مختلف لوگوں کو ارسال فرمائے، ان اسباب ومقاصد میں سے چند درج ذیل ہیں:

          (۱) تعمیل حکم الٰہی، (۲) حصولِ رضا ومحبتِ الٰہی، (۳) مسلمانوں کی بے بسی اور اہلِ کفر کے غلبہ کا خاتمہ، (۴) ہندوستان پر کفار کا تسلط اور اسلام کا زوال دیکھ کر کڑھنا، (۵) ہندوستان سے انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنا، (۶) اعلائے کلمۃ اللہ، (۷) احیائے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، (۸) بلاد اسلامیہ کا استخلاص، (۹) دین کا قیام، (۱۰) احکام شرعی کا نفاذ، (۱۱) فریضئہ دعوت وتبلیغ کی ادئیگی۔

          سید صاحب نے اپنی انتھک کوششوں کے ذریعے مذکورہ اسباب ومقاصد میں سے اکثر میں کامیابی حاصل کی،  وَذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاء۔ حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے  لکھا ہے کہ اگر سید صاحب کا احیائے جہاد اور حکومت اسلامی کے قیام کے علاوہ اور کوئی کارنامہ نہ ہوتا تب بھی ان کی عظمت کے لیے کافی تھا۔

سید صاحبؒ کے طریقے کی خصوصیات

           اب تک جو بیان کیاگیا وہ سید صاحب کی دعوتی خدمات کی کچھ نمایاں جھلکیاں تھیں۔ اب ضروری ہے کہ سید صاحب کے طریقۂ دعوت کی خصوصیات کاذکر کیا جائے، جن میں سے بعض کا ذکر مولانا علی میاںؒ نے اپنی کتاب ’’سیرت سیداحمد شہیدؒ‘‘ کی جلد دوم میں تفصیل سے کیا ہے۔

          ۱- پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس زمانے میں اللہ کے یہاں آپ کا طریقہ سب سے زیادہ مقبول تھا،اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی ان دیار مشرقیہ میں اس میں منحصر تھی؛ اس لیے کہ احکامِ الٰہی کی بجاآوری اوراتباع سنت پر سب سے زیادہ زور آپ کے یہاں پایا جاتا تھا۔

          ۲- مشایخ وعلماء میں مقبولیت: چنانچہ ہندوستان کا کوئی خانوادہ اور کوئی سلسلہ ایسا نہیں جس کے اکابر نے سید صاحبؒ کو اپنا بڑا نہ مانا ہو،اور آپ سے استفادہ نہ کیا ہو۔

          ۳- آپ کی عجیب وغریب تاثیر اور انوار و برکات تھے جس کے بڑے بڑے بزرگ بھی قائل تھے۔

          ۴- آپ كا طريقۂ تزکیہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طريقهٔ تزکیہ سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔(۳) اور وہ تمام صفات جن کا ذکر حضرت ابراہیمؑ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دعا کرتے ہوئے ذکر کیا تھا جن کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے:  ’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ…‘‘ (سورہ بقرہ:۱۲۹) سید صاحب کے اندر ایک حد تک پائی جاتی تھیں۔

          ۵- سید صاحب جہاں بھی جاتے وہاں کے لوگوں کی کایا یکایک پلٹ جاتی، مسلمان شرک وبدعات اور غلط رسم ورواج سے توبہ کرتے، یہاں تک کہ غیرمسلم بھی آپ کے معتقد ہوئے بغیر نہ رہتے، اور بہت سے اسلام بھی قبول کرلیتے۔

          ۶- ہر وقت علماء کی ایک جماعت آپ کے ساتھ ہوتی جن میں مولانا عبدالحئی بڈھانویؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ قابل ذکر ہیں۔

          ۷- جو بھی آپ سے ملنے آتا آپ نہایت ہی خوش اخلاقی وخندہ پیشانی سے ملتے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگ خود بخود آپ کے گرویدہ ہوجاتے اور آپ کی ہر بات پر عمل کرتے۔

          ۸- سید صاحب کی ایک بڑی دعوتی خصوصیت یہ تھی کہ جب کسی غلط رسم کی اصلاح یا کسی متروک سنت کا احیا کرنا ہوتا تو پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھلاتے جیساکہ نکاحِ بیوگان میں معلوم ہوا۔

امتیازی خصوصیات

           سید صاحب نے جو دعوتی خدمات انجام دیں، اس میں شک نہیں کہ ان سے پہلے بھی بہت سے علماء نے دعوتی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، لیکن ہر شخصیت کے اندر کچھ امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں، جن کی بناء پر وہ دوسری شخصیات سے ممتاز ہوتی ہے۔

          ۱- فطری خصوصیات: سید صاحب کے اخلاق واصاف کا مرکزی نقطہ اور نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مناسبت تامہ اور مزاجِ نبوی سے طبعی وذوقی اتحاد نظر آتا ہے، مولانا اسماعیل شہیدؒ فرماتے ہیں کہ: اگرچہ بہت کثرت سے لوگ راہ راست پر آئے، لیکن ان میں سے کسی نے توسط واعتدال کی راہ اختیار نہیں کی سوائے ان حضرات کے جو سید صاحب کے صحبت یافتہ تھے، سید صاحب کے اندر بچپن ہی سے شجاعت کا مادہ بھرا ہوا تھا، ساتھ ہی مزاج میںحیا کا مادہ بھی بہت تھا، بعض مرتبہ غایت حیا سے خود اپنے قصوروار اور مجرم پر نظر نہیں کرتے تھے، اور خود آپ کی نگاہیں جھک جاتی تھیں۔

          ۲- دینی اخلاق واوصاف میں آپ کی خصوصیات: حقیقت یہ ہے کہ خدا کی کسی مخلوق کو ایذا دینا اور اپنے نفس کا انتقام لینا یا کسی پر غصہ اتارنا اور نفس کے تقاضے سے اس کو اذیت پہنچانا آپ کے مسلک میں ناجائز تھا، جب آپ تمام انسانوں؛ بلکہ جانوروں تک کے ساتھ شفقت ورعایت کا یہ معاملہ تھا تو مسلمانوں کے ساتھ مراعات ولحاظ کا جو رویہ ہوگا وہ ظاہر ہے۔

          اسی کا تتمہ وتکملہ تھا کہ آپ کے نزدیک ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مصالحت کی بيحد اہمیت تھی، رفقاء اور دین کے راستے میں ساتھ دینے والوں کے ساتھ شفقت ومساوات کا معاملہ کرتے، باوجود اس کے کہ سب رفقاء ہر وقت آپ کی خدمت کے لیے تیار رہتے آپ کوئی امتیاز پسند نہیں کرتے تھے، ہرکام میں مجاہدین اور رفقاء کے شریک حال رہتے، حد درجہ شفقت ونرمی کے باوجود شریعت کے معاملہ میں انتہائی غیور اور حساس تھے،اسی دینی حمیت وغیرت نے آپ کو اسلام کی حمایت، بیکس مسلمانوں کی امداد اور جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا، اور بالآخر اسی راہ میں آپ نے جان دے دی۔

           ۳- روحانی وباطنی کیفیات وخصوصیات:

           (الف) دعا: دین کے جن شعبوں کی اللہ نے آپ سے تجدید کرائی اور ان کو نئی زندگی بخشی ان میں سے ایک دعا ہے، ہر جنگ اور ہر اہم واقعہ سے پہلے اور اس کے بعد اہتمام کے ساتھ دعا کرنا آپ کا خاص معمول تھا۔

          (ب) ایمان واحتساب: دین کا دوسرا مہتم بالشان شعبہ جس کے آپ اپنے دور میں مجدد تھے جو دراصل پورے نظام دینی کا روح رواں ہے، وہ ایمان واحتساب ہے،یعنی زندگی کے تمام اعمال واشغال میں صرف رضائے الٰہی کی طلب نیت کے استحضار اور اجر وثواب کی طمع میں انجام دینا۔

          (ج) اتباع سنت: یہ آپ کی زندگی اورآپ کی دعوت کا جز بن گیا تھا، آپ کے نزدیک عبادات کے ساتھ معاملات اور امور معادکے ساتھ امور معاش میں بھی اتباع سنت اور ترک بدعات ضروری ہے۔

          (د) محبت وخشیت: محبت ومحبوبیت ان حضرات کے خواص میں سے ہے، جن کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کا معاملہ اجتباء وانتخاب کا ہوتا ہے اس کے آثار ان کی زندگی میں ظاہر وعیاں ہوتے ہیں، سید صاحب میں محبت کی نسبت اتنی غالب تھی کہ اس کے اثرات پاس بیٹھنے والوں اور نماز میں مقتدیوں پر بھی پڑتے تھے۔

          ۴- تجدید وامامت: علماء و مبصرین کے ایک بڑے گروہ کا خیال ہے کہ سید صاحب تیرہویں صدی کے مجدد تھے، سید صاحب کی تجدید کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اصول ومبادی میں اپنی جامعیت اپنے نظامِ تربیت اور اس كے نتائج وآثار میں اسلام کی اصلی دعوت سے بہت مشابہ اور قریب ہے، آپ کے وجود نے اسلام کے حق میں باران رحمت اور بادِ بہاری کا کام کیا۔

          سید صاحب کا سب سے بڑا امتیازی تجدیدی کارنامہ اور آپ کی سب سے بڑی کرامت اور زندہ یادگار آپ کی پیداکردہ اورتربیت کی ہوئی وہ بے نظیر جماعت ہے، جس کی مثال صحابہ کے بعد مشکل سے ملتی ہے۔ یہ جماعت جس طرح دشمنوں سے جہادکرتی تھی اس سے زیادہ خود اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتی،اور سید صاحب کی اس تربیت کا اثر آج تک پایا جاتا ہے۔

          خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سید صاحب تیرہویں صدی ہجری کے وہ مرد مجاہد تھے، جو عمل کے شہسوار اور وقت کے قلندر تھے، آپ کے یہاں قرآنی معارف کی بہار بھی تھی اور جہاد حق کی للکار بھی، آپ کے اندر ابوبکر صدیقؓ کا فہم وجمال بھی تھا اور عمر فاروقؓ کا تبحروجلال بھی، آپ وقت کے ابراہیم اور زمانہ کے بت شکن تھے، آپ نے علوم کے صنم کدے میں اذان دی اور میدان عمل کے طاغوتوں سے جنگ کی، آپ کی کوشش یہ تھی کہ قرآن ہی حکومت کا نظام اور وقت کا امام ہو،اور قرآن ہی تمام علوم کا منبع و محور اور سارے فنون کا مآخذ ومرکز ہو، آپ کی آرزو یہ تھی کہ دہنی وفکری گمراہیوں کا سدباب کیاجائے اور میدان عمل سے باطل کو بے دخل کردیا جائے، آپ کے اندر معلّمانہ عظمت بھی تھی اور قیادت کی آن بان اور خلافت کی شان بھی، اس لحاظ سے آپ ملت کے محسن بھی تھے اور وقت کے امام بھی، لہٰذا آپ کا یہ مقام بلکہ بعد والوں پر آپ کا یہ حق بنتا ہے کہ آپ کے افکار ونظریات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے، اور شخصیتوں کی تعمیر میں آپ کی زندگی سے پورا فائدہ اٹھایا جائے۔ سید صاحب اپنی تحریک کے ذریعے غلط خیالات، باطل نظریات اور برے حالات کو روشن خیالات، دینی وایمانی نظریات، پاکیزہ جذبات اور قابل رشک حالات سے بدل دیا، اللہ ان کو اس کا پورا پورا بدلہ عطا فرمائے اور ہم کو بھی اس میں حصہ نصیب فرمائے۔ آمین!

خاتمہ:   سید صاحب کی سیرت پڑھنے والے پر چند اثرات لازم طور پر پڑتے ہیں:

          (۱)      سید صاحب کی حکمت وبصیرت اور شرح صدر۔

          (۲)      سید صاحب کی اعلیٰ درجہ کی سلامت فہم اور سلامت طبع کا اثر۔

          (۳)     آپ کے مسلک کے اعتدال کا اثر۔

وما توفیقی  إلا باللّٰہ

حواشی:

(۱)      ماخوذ بالتلخیص: تاریخ دعوت و عزیمت جلد اوّل، ص:۱۳-۱۵۔ مصنف: مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ)

(۲)      ماخوذ بالتلخیص: إذا ہفت ریح الإیمان، ص:۴-۳۰۔ تصنیف: مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ۔

(۳)     سیرت سید احمد شہید جلد دوم، صفحہ ۵۸۳-۵۸۸۔

٭٭٭

(بشکریہ ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11 ، جلد: 95 ‏، ذی الحجة 1432 ہجری مطابق نومبر 2011ء)

أحمد بن عرفان الشهيد للشيخ علي الطنطاوي

العنوان:         أحمد بن عرفان الشهيد

تأليف:           الشيخ علي الطنطاوي

عدد الصفحات:  40

سنة الطبع:       1997

الناشر:             دار الفكر, دمشق

أحمد بن عرفان الشهيد للشيخ علي الطنطاوي

اضغط هنا للتحميل.